Sunday, June 28, 2015

حقانی نیٹ ورک اور سعودی عرب کے تعلقات کی کہانی سعودی ویکیلیکس کی زبانی




سعودی سفارتی دستاویزات جو ویکی لیکس نے شایع کی ہیں کے مطابق سعودی عرب کا اسلام آباد پاکستان میں سفارت خانہ دیوبندی دہشت گرد گروپ حقانی نیٹ ورک کے ساتھ رابطے میں رہا اور گروپ لیڈر جلال حقانی کے علاج و معالجے کے لئے سعودی عرب کے دورے کا انتظام بھی کیا

ویکی لیکس نے جو دستاویزات شایع کی ہیں ان سے سعودی حکام اور حقانی نیٹ ورک کے درمیان تعلق پر کم ہی روشنی پڑتی ہے ، حالانکہ دونوں کے درمیان سی آئی اے -سعودی فنڈڈ جہاد افغانستان کے دنوں سے ہی تعلقات چلے آرہے ہیں

ویکی لیکس نے سعودی عرب کی جن خفیہ دستاویزات کو شایع کیا ہے ، ان میں سے ایک دستاویز پر سعودی عرب کے پاکستان میں متعین سابق سفیر عبدالعزئزابراھیم الصالح الغدیر کے دستخط ہیں اور اسے انتہائی کانفیڈنشل قرار دیا ہے ، اس دستاویز کے مطابق حقانی نیٹ ورک کے سربراہ جلال الدین حقانی کا بیٹا نصیرالدین حقانی سے سعودی سفیر کی ملاقات ہوئی اور یہ ملاقات 15 فروری 2012ء کو ہوئی

ملاقات کا مقام درج نہیں ہے لیکن سفیر اکثر ملاقاتیں اپنی رہائش یا سفارت خانے میں کیا کرتے تھے اور یہ دونوں ڈپلومیٹک انکلیو میں واقع ہیں جہاں سخت پہرہ ہوتا ہے اور پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی ہمہ وقت نگاہیں وہاں لگی رھتی ہیں

اس ملاقات کے دوران نصیرالدین نے اپنے والد کی جانب سے بادشاہ عبداللہ بن عبدالعزیز کو سعودی ھسپتال میں علاج کی سہولت فراہم کرنے کی درخواست کی

ایک اور کیبل جس پرفروری 25 ، 2015ء کی تاریخ درج ہے ، کہتی ہے کہ بیماری کی نوعیت سفیر غدیر کو بتادی گئی ہے لیکن اس مراسلت میں یہ نہیں بتایا گیا کہ جلال حقانی کون سی بیماری میں مبتلا تھا

میڈیا نے جلال الدین حقانی کو رعشے کی بیماری میں مبتلا بتایا تھا اور جبکہ بعض نے اس کو لوپس کی بیماری کا ہے
سفیر غدیر کا مراسلہ بتاتا ہے کہ اس وقت جلال الدین حقانی وزیرستان میں مقیم تھا اور ڈاکڑوں نے اسے ہسپتال داخل ہونے کا مشورہ دیا تھا

نصیر الدین اور سعودی سفیر کے درمیان ملاقات اس رات ہوئی جب افغان صدر حامد کرزئی کی آصف علی زرداری سے اسلام آباد میں ہوئی تھی اور جنرل کیانی کو کہا گیا تھا کہ وہ ملا عمر سے ان کی ملاقات کو ممکن بنائیں ، سعودی مراسلے کے مطابق جنرل کیانی نے کرزئی کو مشورہ دیا تھا کہ وہ حقانی نیٹ ورک والوں سے مل لیں ، کرزئی نے کہا تھا کہ اس کو حقانی گروپ کے رہنماوں سے ملنے پر کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن شاید وہ اس سے ملنا پسند نہ کریں

جلال الدین حقانی نے طالبان رجیم کے کابل میں امریکی حملے کے گرنے کے بعد شمالی وزیرستان میں اپنا اڈا قائم کیا تھا ، اور اس اڈے سے وہ باڈر معاملات کو دیکھ تہا تھا اور اسی اڈے سے وہ نیٹ ورک کے آپریشنز کی نگرانی کرتا تھا ، گروپ پر افغانستان میں مہلک ترین حملے کرنے کا الزام بھی عائد کیا گیا

اپنی بیماری کے سبب جلال حقانی نے گروپ کی قیادت اپنے بیٹے سراج الدین حقانی کو سونپ دی تھی
جلال الدین 31 جنوری 2001 ء سے اقوام متحدہ کی پابندیوں والی فہرست میں شامل ہے ، سلامتی کونسل کی قراداد نمبر 1267 جو 1999ء میں منظور ہوئی اور قرارداد نمبر 1333 جو 2000 ء میں منظور ہوئی کا اطلاق بھی اس پر ہوتا ہےجس کی وجہ سے اس پر انٹرنیشنل سفر پر پابندی ہے اور اس کے ساتھ کسی قسم کا تعاون نہیں ہوسکتا ہے

سعودی کیبل سے ظاہر یوتا ہے کہ جلال الدین حقانی کے پاس جہاد افغانستان کے دنوں سے سعودی پاسپورٹ ہے
اس کے بیٹے نصیرالدین نے باپ کا پاسپورٹ بھی دوران ملاقات غدیر کے حوالے کیا ، اگرچہ کیبل سے یہ پتہ نہیں چلتا کہ پاسپورٹ سفیر کے حوالے کیوں کیا گیا ، لیکن شنید یہ ہےکہ مقصود پاسپورٹ کی تجدید تھی
جو کیبل ریلیز ہوئی ہے اس میں جلال حقانی کے سفر کی تفصیل نہیں ہے کہ کب اس نے سفر کیا سعودی عرب کا یا یہ سفر ہوہی نہیں سکا تھا
حیرت کی بات یہ ہے کہ پاکستان کے حقانی نیٹ ورک سے تعلقات کا الزام تو امریکیوں کی جانب سے کئی بار لگایا گیا لیکن امریکی اداروں نے کبھی سعودی عرب کے حقانی نیٹ ورک سے تعلقات کا نہ تو انکشاف کیا اور نہ ہی سعودی عرب سے حقانی نیٹ ورک کے ساتھ تعلقات منقطع کرنے کا مطالبہ کیا
نوٹ : اس بلاگ کے لئے انگریزی روزنامہ ڈان کی ویب سائٹ پر باقر سجاد سید کی خبر کو بنیاد بنایا گیا ہے


No comments:

Post a Comment